تحریر : سید قمر عباس قنبر نقوی علی گڑھ
حوزہ نیوز ایجنسی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی اور دنیائے علم و ادب کی قابلِ قدر شخصیت سرسید احمد خان دہلوی 17 اکتوبر1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ جن کا شجرہ نسب بابِ شہرِ علم، امیرالمونین حضرت علی ابن ابی طالبؑ اور رسولِ اکرمؐ، رحمة اللعالمینؐ، خاتم النبیینؐ کی چہتی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ کی پاک و پاکیزہ نسل میں حضرت امام محمد تقیؑ سے ستائسویں پشت میں ملتا ہے۔
سرسید کے والد سید محمد متقی (المعروف میر متقی) والدہ عزیز النساء اور اہلیہ پارسا بیگم (المعروف مبادک بیگم ) تھیں _ سرسید احمد خان مسلمانوں کے ہمدرد و بہی خواں اور اُن کے تابناک مستقبل کے بارے میں فکر رکھنے والے انسان تھے۔ جنھوں نے بجنور، آگرہ، مراد آباد غازی پور اور بنارس میں اعلیٰ عہدوں پر رہتے ہوئے مسلمانوں کی معاشی بدحالی، قیادت کی فقدانی، تعلیمی کمزوری اور حکومتی حلقوں کے عِتاب کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا کہ اگر اب اصلاح میں دیر ہوئی تو مسلمان سوائے خانساماں، خدمتگار . گھاس کھودنے والوں سے آگے نہ بڑھ سکیں گے۔ چنانچہ سر سید نے انسانی بنیاد پر مسلمانوں کو قومی دھارے سے جوڑنے، جمود سے نکالنے اور اُنھیں باعزت قوم بنانے کا مصمم ارادہ کیا۔ انھوں نے اپنے مِشن کا آغاز عدمِ واقفیت کے خاتمہ سے کیا چونکہ مشاہدہ گواہ ہے کہ تمام پریشانیوں اور دقتوں کی بنیاد عدم واقفیت ہے۔ اپنے مِشن کو مستحکم کرنے کے لیے سرسید نے 1864 میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت مغربی زبانوں کی اہم کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کرایا ۔ 1870 میں" تہذیب الاخلاق‘ شروع کیا جس کی اشاعت کا مقصد مسلمانوں میں وقت شناسی ، احساسِ بیداری اور ذہن سازی تھا۔ اس کے بعد 1875 میں اسی مقصد کو مزید تقویت بخشنے کے لیے علی گڑھ میں اولاً مدرسة العلوم پھر محمڈن اور ینٹل کالج قائم کیا۔ جسے 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہو گیا۔ پہی سرسید خواب تھا جس کی تعبیر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں دنیا دیکھ رہی ہے ۔ سر سید احمد خان کو 1888 میں برطانوی حکومت نے "سر" کے خطاب سے نوازا۔
افسوس! نسلوں کو علمی روشنی، عزت و شہرت، صحت و زندگی اور تحفظ و رزقِ حلال کی راہ دیکھانے والا یہ عظیم انسان 27 مارچ 1898 کو 81 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد میں سپرد خاک ہوا ۔ آئیے غور کریں کہ اس عظیم رہنما کو خراجِ عقیدت کیسے پیش کریں جو ہمیں مُلک کی بیس سُرفہرست ریسرچ یونیورسٹیز میں ایک یونیورسٹی دے گا۔ جبکہ ماں باپ اس کے بھی تھے ۔ وہ اولاد بھی رکھتا تھا۔ نکاح اس نے بھی کیا تھا۔ یاد رکھیے صرف یونیورسٹی کی عمارتوں کو خوبصورت انداز میں سجانے، یونیورسٹی کیمپس میں قومی پرچم اور یونیورسٹی مونوگرام کے پرچم پورے لہرا نے، ںسرسید احمد خاں کی کتابوں اور تصویروں کی نمائش اور طلبا و طالبات کی سطح پر تقریری و تحریری مقابلوں اور اس میں کامیابی حاصل کرنے والوں کو سرسید ایوارڈ سے نوازنے (واضح رہے کہ راقم السطور کو 1983 میں پہلا سر سید ایوارڈ حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔) عزت مآب چانسلر / وائس چانسلر کی صدارت میں یونیورسٹی کے مرکزی ہال (کینڈی ہال) میں سر سید ڈے کے عنوان سے جلسہ منعقد کرکے سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاء کی خدمات کو یاد کرنا، ملک و بیرون ملک کے ممتاز شہریوں اور اولڈ بوائز کو مہمان بنانا اور ڈنر کا اہتمام کرنا ( یہ الگ بات ہے کہ ولادتِ شہرِ علم ، حضرت مرسلِ اعظمؐ، خاتم النبینؐ، رحمت العالمینؐ اور آپؐ کی آلِ اطہارؑ و اصحاب کرام کے مواقع پر دستر خوان کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا بلکہ بعض غلیظ اُمتی تو جسارت کرتے ہوئے انِ اعمالِ خیر کو مکرو الفاظ سے یاد کرتے ہیں جس کے وہ خود زمہ دار ہیں۔) ہی خراجِ عقیدت اور خراجِ تحسین نہیں ہے اگرچہ ان تمام اُمور کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن اصل خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ہم سب لائبریریوں کو کُتب، طلبا و طلبات
کو حوصلہ، لا علمی کے سبب محروم و بھٹکے ہوئے افراد کی مدد اور ایسے تعلیمی اداروں کی جہاں جدید علوم کے ساتھ تمام زبانوں اور مذاہب کی تعلیم دی جاتی کی حسبِ استطاعت مالی تعاون کرکے مرحوم سر سید کے مشن کو آگے بڑھانے اور اس راہ میں آنی والی رُکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ بانی مادرِ درسگاہ کے یومِ ولادت پر خوشیاں منانا علیگ برادری کا حق ہے لیکن یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بانی درسگاہ سے جو شاندار تاریخ وابستہ ہے اُس کی نہ صرف حفاظت بلکہ اُسمیں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ معاشرے کے لیے کچھ کرنے کے جذبے اور لگن کو اُبھاریں اور اپنی اپنی سطح تک سوچیں کہ ہماری آئندہ نسلوں کی ضرورت بس ایک ادارے سے پوری نہیں ہو سکتی ۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو گیا اور میدانِ علم میں راہنمائی کے لیے ہم میں کوئی سرسید پیدا نہیں ہوا حالانکہ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ سرسید بننا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ احساسِ ذمہ داری اور پاک و پختہ ارادہ ہی روشن مستقبل کا ضامن ہے۔